متحدہ عرب امارات: صحت سے متعلق سوش میڈیا سٹارز سے خبردار رہئے

متحدہ عرب امارات: صحت سے متعلق سوش میڈیا سٹارز سے خبردار رہئے


متحدہ عرب امارات میں ماہرین صحت نے رہائشیوں کو صحت پر بات کرنے والے سوشل میڈیا سٹارز کی باتوں پر عمل کرنے کے خلاف متنبہ کیا ہے کیونکہ وہ دوائیوں کی سفارش کرنے کے اہل نہیں ہیں یا ان کی تجاویز ان مصنوعات کے حق میں متعصب ہوسکتی ہیں جن کو وہ فروغ دے رہے ہیں۔

 

 ڈاکٹروں نے رہائشیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مقامی صحت کے حکام اور طبی پیشہ ور افراد سے درست اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے مفید معلومات حاصل کریں۔ ۔

 

 ایک نئے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ متحدہ عرب امارات کے چار میں سے تین افراد سوشل میڈیا پر ایسے اکاؤنٹس کو فالو کرتے ہیں۔ تقریباً 29 فیصد افراد صحت سے متعلقہ اکاؤنٹس کو فالو کرتے ہیں۔

 

 ایسٹر کلینک کے اندرونی ادویات کے ماہر ڈاکٹر جارج چیریئن نے کہا کہ صحت سے متعلقہ بات چیت کرنے والے افراد کو فالو کرنے والے رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد اچھا شگون نہیں ہے۔ یہ لوگ طبی اصطلاحات کے ماہر نہیں ہیں اور صحیح پیغامات نہیں دے سکتے۔ طبی معلومات صرف مقامی صحت حکام سے حاصل کی جانی چاہئے جو کہ سب سے زیادہ قابل اعتماد ذریعہ ہے۔

 

 مورفیلڈز آنکھ اسپتال امارات کے ماہر امراض چشم ڈاکٹر عمار صفر نے کہا کہ یہ سوشل میڈیا انفلوسرز اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر بات کرتے ہیں اس لیے ان کی سفارشات جانبدار ہوسکتی ہیں اور صرف ان کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہیں۔

 

 لہذا، عوام کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ان افراد کے پس منظر کو جانیں تاکہ انہیں دیے جانے والے مشورے کا یقین ہو۔

 

 انہوں نے رہائشیوں کو مشورہ دیا کہ وہ تحقیق کریں اور صرف پیلتھ کئیر کے مستند ہروفیشنل افراد سے طبی مشورہ لیں۔ 

 

 تازہ ترین سروے کے مطابق، یوٹیوب سب سے مقبول میڈیا چینل ہے جس پر متحدہ عرب امارات کے افراد متاثر کن افراد کو فالو کرتے ہیں، اس کے بعد فیس بک (62 فیصد)، انسٹاگرام (56 فیصد)، ٹک ٹاک (36 فیصد)، ٹوئٹر (32 فیصد) اور سنیپ چیٹ (20 فیصد)۔ دوسری طرف، 19 فیصد رہائشیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ان سوشل میڈیا کے متاثر کن لوگوں کو فالو نہیں کرتے ہیں۔ 

 

 میڈ کیئر ہسپتال کی ایک ماہر غذائیت لینا شبیب نے کہا کہ سوشل میڈیا کی دنیا میں، اثر انداز کرنے والوں کی توثیق ہمیشہ ان کے تجربے اور رائے کی نمائندگی نہیں کرتی۔ 

 

یہاں تک کہ اگر کوئی فرد یہ دعوی کرتا ہے کہ کوئی پروڈکٹ یا سروس اس نے استعمال کی اور وہ اچھی تھی تو تب بھی خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے کیوںکہ ہو سکتا ہے وہی پروڈکٹ آپ کے لیے کام نا کرے یا پھر الٹا اس کے سنگین مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔ یہ لوگ صرف مختلف فائدے بتاتے ہیں لیکن نقصان نہیں بتاتے۔ 

 

 انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے صارفین سوشل میڈیا سے معلومات اکٹھا کر سکتے ہیں لیکن آخرکار طبی مشورہ کسی مستند ڈاکٹر یا طبی پیشہ ور سے ہی لیا جانا چاہیے۔

 

انہوں نے کہا کہ میرے بہت سے مریض سوشل میڈیا پر طبی مشورے حاصل کرتے ہیں اور آخر کار آکر میری پیشہ ورانہ رائے طلب کرتے ہیں۔ میرے خیال میں سوشل میڈیا لوگوں کے لیے علاج کے مختلف طریقوں کے بارے میں جاننے کا ایک بہترین ذریعہ ہے لیکن انہیں ڈاکٹر کی طرف سے منظوری کے بعد علاج اور دوا کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔

 

 ڈاکٹر جسبیر چھٹوال نے بتایا کہ سوشل میڈیا اور متاثر کن لوگوں کے مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ 

 

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ غیر مستند مواد شئیر ہو سکتا ہے جس پر لوگوں کو اندھا اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ درست پیغامات کو پیش کرنے کی ان کی قابلیت ایسی چیز ہے جسے لوگوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ صحت کے مختلف اثرات پر یقین کرنے اور ان پر آنکھیں بند کرکے ان کی پیروی کرنے سے پہلے تصدیق اور ریگولیٹری اداروں کی منظوری کو چیک کریں۔

 

 انہوں نے متنبہ کیا کہ بہت سے معاملات میں لوگ صحت کے لیے مختلف سپلیمنٹس آزمانے کے خواہشمند ہوتے ہیں، جس کے طویل مدتی استعمال سے صارفین کے جسم پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 

 

سوشل میڈیا سے ملنے والی کسی بھی معلومات کے صحت پر سنگین نتائج سے بچنے کے لیے قابل طبی ماہرین سے تصدیق کرنے کی ضرورت ہے۔ صحت مند غذا اور طرز زندگی مقصد ہونا چاہیے اور جب ضروری ہو تو طبی امداد حاصل کرنا ایک سمجھدارانہ عمل ہے۔

 

متحدہ عرب امارات کے رہائشیوں کی سب سے زیادہ فالو کرنے والی اقسام: 

29 فیصد صحت

 28 فیصد خوراک 

26 فیصد کھیل

 24 فیصد مشہور شخصیت

 23 فیصد موسیقی

 

وہ میڈیا چینلز جن پر متحدہ عرب امارات کے رہائشی ایسے افراد کو فالو کرتے ہیں: 

 

66 فیصد یوٹیوب

 62 فیصد فیس بک

 56 فیصد انسٹاگرام

 36 فیصد ٹک ٹاک

 32 فیصد ٹویٹر

 


یہ مضمون شئیر کریں: