لاک ڈاؤن کی تھکاوٹ نے غیر ملکیوں کو ایشیا سے متحدہ عرب امارات منتقل کرنے پر آمادہ کر دیا

لاک ڈاؤن کی تھکاوٹ نے غیر ملکیوں کو ایشیا سے متحدہ عرب امارات منتقل کرنے پر آمادہ کر دیا

پچھلے چھ مہینوں میں سینکڑوں خاندان ایشیا سے متحدہ عرب امارات منتقل ہوچکے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات نے خود کو کوویڈ19 سے نمٹنے کے اپنے منفرد طریقے کی وجہ سے ایک پرکشش منزل ثابت کیا ہے۔

 

 اسٹیٹ ایجنٹوں ، اسکولوں اور بھرتی کے ماہرین نے کہا ہے کہ انہوں نے لاک ڈاؤن ، ہوم اسکولنگ اور کورونا وائرس کیسز کی نئی لہروں سے تنگ آکر انتہائی تنخواہ دار پیشہ ور افراد کی آمد دیکھی ہے۔ 

 

ہیری ٹریگوننگ نے بتایا کہ ہم نے اس سال ایشیا سے دبئی منتقل ہونے کے خواہشمند غیر ملکیوں کے سوالات میں 60 فیصد اضافہ دیکھا ہے۔ 

 

انہوں نے بتایا کہ خاص طور پر دبئی کو اس کی ویکسینیشن کی زیادہ شرح ، اسکولوں میں تعلیم کی واپسی اور ریستوران کھولنے کی بدولت خاندانوں کے لیے ایک اچھا آپشن سمجھا جاتا ہے۔ 

 

متحدہ عرب امارات نے کوویڈ19 حکمت عملی کی وجہ سے اپنی بین الاقوامی پہچان بنا لی ہے۔ ابوظہبی کوویڈ19 سے جنگ میں بہتر کردار ادا کرنے والے 50 شہروں کی نئی عالمی درجہ بندی میں سرفہرست ہے جس میں دبئی کا پانچویں نمبر پر ہے۔

 

 الیکس اروکارت، جن کی عمر 44 سال ہے اور وہ 3 بچوں کی ماں ہے، اس موسم گرما میں دبئی منتقل ہونے سے پہلے 11 سال تک سنگاپور میں مقیم رہی۔ اس نے بتایا کہ ہم 2022 میں دبئی منتقل ہونے پر غور کر رہے تھے لیکن اس سال ہمارے لیے کوویڈ19 ایک مسئلہ تھا۔ ان کے شوہر جہاز رانی کا کام کرتے ہیں اور انہوں نے بتایا کہ سنگاپور میں زندگی واقعی بہت محدود تھی اور دبئی میں ہمارے دوست تھے جو ہمیں بتاتے تھے کہ صورتحال کنٹرول میں ہے اور یہ ہمارے لیے ایک اچھا آپشن تھا۔ پھر سنگاپور میں ایک اور لاک ڈاؤن لگ حیا اور ہم نے سوچا کہ لاک ڈاؤن کے بعد پھر لاک ڈاؤن ہوگا۔

 

ایک اور بات یہ بھی تھی کہ دبئی گھر کے بہت قریب ہے ، اور منفی پی سی آر کے ساتھ ہم باآسانی دبئی جا سکتے ہیں۔ سنگاپور میں اب یہ ممکن نہیں ہے ، کوئی پتہ نہیں کہ آپ دوبارہ واپس آ سکتے ہیں یا نہیں۔ 

 

 دبئی بھرتی کے ماہر ڈیوڈ میکنزی نے بتایا کہ سنگاپور اور آسٹریلیا کے کئی یورپی ہیڈ ہنٹرز نے پوزیشنوں کی تلاش میں ان کی کمپنی سے رابطہ کیا ہے کیونکہ کوویڈ19 نے انہیں یہ احساس دلایا ہے کہ انہیں گھر کے قریب رہنا چاہیے

 

 ڈیوڈ میکنزی نے بتایا کہ ہمارے پاس سنگاپور سے آنے والے لوگوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے کیونکہ وہ لاک ڈاؤن سے تنگ آچکے ہیں اور لوگ چینی قبضے کی وجہ سے ہانگ کانگ کو چھوڑ رہے ہیں ، نیز پراپرٹی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔

 

 اس کے علاوہ، دبئی میں ٹیکس سے پاک زندگی ، اچھا موسم ، بچوں کے لیے اچھا ماحول اور انگریزی ایک معیاری زبان ہے۔

 

قرنطینہ کے ساتھ کھلی سرحدیں

 

 سنگاپور کی زیرو کوویڈ پالیسی نے مارچ 2020 سے زیادہ تر سرحدیں بند رکھی ہیں اور ہر بار کیسز بڑھنے پر باقاعدہ سماجی لاک ڈاؤن نافذ کر دیا جاتا ہے۔ کوویڈ19 کے آغاز کے بعد سے ہانگ کانگ کا باقاعدہ سفر بھی بند کر دیا گیا ہے اور آنے والے مسافروں کو ایک سرکاری سہولت میں 14 سے 21 دن قرنطینہ میں رہنے کی ضرورت ہے۔ انہی ہابندیوں کی وجہ سے لوگ اپنا علاقہ چھوڑ رہے ہیں۔

 

 سنگاپور کی وزارت برائے افرادی قوت کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ دسمبر 2020 کو ختم ہونے والے سال میں بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کی تعداد میں تقریبا 14 فیصد کمی آئی ہے۔ دریں اثنا ، مئی 2021 میں ہانگ کانگ میں ایک امریکی چیمبر آف کامرس کے سروے سے ظاہر ہوا کہ 42 فیصد افراد بیرون ملک ہجرت کرنے پر غور کر رہے ہیں یا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ 

 

تقریبا دو تہائی جواب دہندگان نے قومی سلامتی کے نئے قانون کو ہجرت کی وجہ کے طور پر پیش کیا جبکہ آدھے افراد نے اس کی وجہ کوویڈ19 کو قرار دیا جنہوں نے کہا کہ قرنطینہ نے ان کے لیے اپنے خاندانوں کا سفر کرنا اور ان سے ملنا مشکل بنا دیا ہے۔ 

 

دبئی اسٹیٹ ایجنٹ ، ٹریگوننگ پراپرٹی کے ہیری ٹریگوننگ نے بتایا کہ انہوں نے رواں سال ایشیاء سے منتقل ہونے کے خواہشمند غیر ملکیوں کے سوالات میں 60 فیصد اضافہ دیکھا ہے۔ 

 

انہوں نےبتایا کہ میری سنگاپور ، ہانگ کانگ اور ملائیشیا میں درجنوں غیر ملکیوں سے بات چیت ہوئی ہے جو یہاں منتقل ہونے کے خواہاں ہیں اور بہت سارے خاندان ایسے ہیں جن کے لیے ہمارے پاس بڑے بڑے ولاز ختم ہو چکے ہیں۔ 

 

 نارتھ لندن کالجیٹ اسکول کے پرنسپل جیمز موناگھن نے بتایا کہ جولائی کے دوران ان کے آن لائن "پرنسپل سیشنز سے ملنے" میں شرکت کرنے والوں کی تعداد میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ بنیادی طور پر بیرون ملک خاندانوں کی دلچسپی اور دبئی منتقل ہونے کے خواہشمند خاندانوں کا نتیجہ ہے۔ 

 

انہوں نے بتایا کہ ہم نے اس موسم گرما میں ایک تبدیلی دیکھی ہے جس میں سخت پابندیوں کا سامنا کرنے والے ممالک سے سوالات آنے میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ سوالات خاص طور پر ان علاقوں سے آ رہے ہیں جہاں طلباء طویل عرصے سے آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں چین اور بھارت شامل ہیں۔ مزید آن لائن سکولنگ کا سامنا کرنے والے والدین یقینی طور پر دبئی جانے میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں تاکہ آئندہ سال ان کے بچے فیزیکل کلاسز لے سکیں۔


یہ مضمون شئیر کریں: