کوویڈ19 نے دماغی صحت کے حوالے سے رویوں کو تبدیل کیا ہے، ماہر

متحدہ عرب امارات میں مقیم ایک سرکردہ ماہر نے کہا ہے کہ کوویڈ19 کا ایک مثبت اثر ہوا ہے جو کہ دماغی صحت کے بارے میں لوگوں کے رویوں میں تبدیلی ہے۔


 متحدہ عرب امارات میں مقیم ایک سرکردہ ماہر نے کہا ہے کہ کوویڈ19 کا ایک مثبت اثر ہوا ہے جو کہ دماغی صحت کے بارے میں لوگوں کے رویوں میں تبدیلی ہے۔ 

 

دبئی کے پریوری ویلبیئنگ سینٹر کی بیویوئل تھراپسٹ مندیپ جسل نے کہا ہے کہ ایک نئے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 5 میں سے 1 جواب دہندگان (18 فیصد) نے کہا ہے کہ اب ان کا دماغی صحت کے بارے میں مشورہ کے لیے ماہرین سے مدد لینے کا امکان زیادہ ہے جبکہ دس میں سے ایک (10 فیصد) نے بتایا کہ انہوں نے کوویڈ19 کے تناظر میں پہلی بار ذہنی صحت کے علاج کی کوشش کی تھی۔

 

 اگرچہ کوویڈ19 نے بلاشبہ بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے لیکن مندیپ جسل کا خیال ہے کہ ذہنی صحت کے بارے میں مثبت تجربہ طویل مدتی فوائد پیش کر سکتا ہے۔ 

 

 انہوں نے کہا کہ کوویڈ19 نے پوری دنیا میں بہت ہنگامہ برپا کیا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم ان مثبت پہلوؤں کو بھی جانیں جنہیں ہم تلاش کر سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ذہنی صحت کے بارے میں بات چیت بہت زیادہ عام ہو گئی ہے- یہ اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ نتیجے کے طور پر، لوگ پیشہ ورانہ مدد حاصل کرنے کا بھی زیادہ امکان رکھتے ہیں۔ 

 

  سروے کے نتائج نے دماغی صحت پر کوویڈ19 کے اثرات کے بارے میں متعدد خدشات کو بھی ظاہر کیا ہے جس میں 3 میں سے 1 (34 فیصد) نے کہا کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے زیادہ اضطراب بھرا کا دور تھا۔ تقریباً 4 میں سے 1 (24 فیصد) نے کہا کہ ان کی دماغی صحت کی حالت ملازمت کھو جانے کے خوف یا پہلے سے ہی کسی نوکری سے محروم ہونے کے نتیجے میں مالی خوف کی وجہ سے بگڑ گئی ہے۔ تقریباً نصف (49 فیصد) نے کہا کہ کوویڈ19 کے دوران آرام دہ طریقے سے کام کرنا مشکل ہو گیا تھا۔

 

 بیویوئل تھراپسٹ کا کہنا ہے کہ یہی وہ چیلنجز ہیں جنہوں نے ذہنی صحت کے مسائل کو نمایاں کیا اور پروفیشنل افراد کی مدد لینے کے لحاظ سے رویوں میں تبدیلی کا دروازہ کھولا۔ پرائیوری ویلبیئنگ کلینک دبئی نے ریلیشن شپ کاؤنسلنگ مین لوگوں کی مدد کی درخواستوں میں واضح اضافہ دیکھا ہے جہاں کورونا وائرس کے آغاز کے بعد سے زیر علاج افراد میں 11 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

 

مندیپ جسل نے بتایا کہ کوویڈ19 کے دوران گھروں میں رہنے کی وجہ سے زیادہ قربت کے باعث گھریلو ناچاکیاں اور عدم اطمینان سے بچنا ناگزیر تھا۔ اس کے خیالات کی درستگی یوکے میں ہونے والے ایک پول سے بھی ثابت ہوتی ہے جس کے مطابق ہر چار میں سے ایک سے زیادہ (26 فیصد) لوگوں نے بتایا کہ وہ سوچتے ہیں کہ ان کے ساتھی کے ساتھ ان کے تعلقات اس عرصے کے دوران خراب ہوئے ہیں۔ 

 

 وہ کہتی ہیں کہ دراصل کوویڈ19 نے بہت سے جوڑوں کی زندگی میں صحت مند توازن برقرار رکھنے کی صلاحیت کو ختم کردیا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو، تعلقات کشیدہ ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں منفی سوچ پیدا ہو سکتی ہے جیسا کہ 'میں مقابلہ نہیں کر سکتا' اور 'میں اس رشتے میں ناکام ہو رہا ہوں' اور اس جیسے خیالات منفی طرز عمل کا باعث بن سکتے ہیں جیسا کہ بات چیت ختم کرنا یا گریز کرنا۔ 

 

 گزشتہ 12 مہینوں کے دوران پرائیوری ٹیم کے تجربے میں، سب سے نمایاں مسائل جو جوڑے کی لچک اور بڑھی ہوئی ہم آہنگی کا حقیقی امتحان رہے ہیں ان میں شامل ہیں: رازداری اور ذاتی جگہ کی کمی؛ ایک نئی رفتار اور روزمرہ کے معمولات میں ایڈجسٹمنٹ؛ کام اور مالی کشیدگی؛ بچوں کی دیکھ بھال کے مسائل؛ گھریلو کاموں کی غیر مساوی تقسیم اور غلط بات چیت۔ 

 

 پریوری گروپ کے یوکے سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ لوگ جو کوویڈ19 کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے ان کی عمریں 18 سے 34 سال تھیں جن میں سے 70 فیصد اہم معاشی اور جذباتی اثرات کا شکار تھے۔ 

 


یہ مضمون شئیر کریں: